Deakin University’s project launch seminar, 4 February 2019, Islamabad (urdu version below)
Deakin researchers will undertake a first-of-its-kind investigation into the role of regional actors in Afghanistan and Syria.
Professor Shahram Akbarzadeh, Dr Zahid Shahab Ahmed and Dr Dara Conduit received a multi-year grant from Carnegie Corporation of New York to conduct research assessing the impact of regional actors in the ongoing conflicts in Syria and Afghanistan, which are estimated to have led to the deaths of more than 600,000 people.
The researchers, from the University’s Alfred Deakin Institute for Citizenship and Globalisation, will work alongside international partners and policymakers in Afghanistan, Pakistan and the United Arab Emirates, in the first study of its kind to investigate the full involvement of regional patrons in the proxy conflicts. Among the research partners are South Asia’s prominent research institutes, including Quaid-i-Azam University, the Pak Institute of Peace Studies, and the Afghan Institute of Strategic Studies.
Professor Akbarzadeh said the ongoing wars in Syria and Afghanistan were chosen because of the depth of foreign interference in each conflict, the diversity of external players involved, and the longevity of each conflict.
“Regional proxy conflicts have become the most significant driver of insecurity in the broader Middle East, and external actors are fuelling the fires of conflict in Syria and Afghanistan,” he said.
“The Syrian conflict is a bitter example of where a sovereign state and the international community have manifestly failed in their responsibilities to protect civilians from mass atrocity crimes, and where the involvement of external patrons has changed the dynamics of intra-state conflict.
“This project will provide an important evidence-based study to help us develop a new understanding of proxy conflicts. By working with local policymakers, academics, and practitioners from these regions, we aim to shed light on the scale of external intervention and develop multilateral policy alternatives to address this dire situation and ongoing humanitarian crisis.”
Professor Akbarzadeh said the proxy wars required an ambitious whole-of-region response.
“The proxy crisis in the Middle East is larger than any one state, and patron states on their own are unlikely to change their behaviour unilaterally,” he said.
“We will draw on contacts in the Persian Gulf, South Asia, and Central Asia to advance new understandings of the evolving role of state and non-state actors. The involvement of local experts from the Arab region will support the development of viable, locally-driven policy responses to the proxy conflicts.
“It’s our goal that this project will provide the evidence and momentum required to help drive action to address this urgent area of regional security, by including policymakers as stakeholders throughout the process as a way of ensuring a sustained policy response.”
The Deakin University project, “Assessing the impact of external actors in the Syrian and Afghan proxy wars” Is planned to be completed in June 2020.
ڈیکن یونیورسٹی کے پراجیکٹ کے آغاز کی تقریب 4 فروری کو اسلام آباد میں
ڈیکن یونیورسٹی کے زیر اہتمام ماہرین کی جانب سے افغانستان اور شام کے تنازعات میں علاقائی طاقتو ں کے کردار کا جائزہ اپنی نوعیت کی پہلی سرگرمی ہوگی۔
پروفیسر شاہرام اکبر زادے ، ڈاکٹر زاہد شہاب احمد اور ڈاکٹر دارا کو نیویارک میں قائم کارنیگی کوآپریشن آف نیویارک کی جانب سے کچھ سالوں پر محیط تحقیق کے لئے امداد دی جارہی ہے تاکہ وہ شام اور افغانستان کے تنازعات میں علاقائی طاقتوں کے کردار اور اثرات کا جائزہ لیں جن کی بدولت ان دونوں ممالک میں 6 لاکھ کے لگ بھگ افراد داخلی لڑائی کی نذر ہوئے ہیں ۔
ڈیکن یونیورسٹی کے الفریڈ ڈیکن انسٹی ٹیوٹ فار سٹیزن شپ اینڈ گلوبلائزیشن سے وابستہ ماہرین پاکستان ، افغانستان اور متحدہ عرب امارات میں بین الاقوامی معاون پالیسی سازوں کے ہمراہ شام اور افغانستان کے تنازعات میں علاقائی طاقتوں کے محرکات کی جانچ کریں گے ۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی کاوش ہوگی۔ اس تحقیق کے دوران معاون اداروں میں جنوبی ایشیاء کے نمایاں تحقیقی ادارے جیسا کہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد ، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز اسلام آباد اور افغان انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز شامل ہیں۔
پروفیسر اکبرزادے نے اس جانچ کی وجوہات کے متعلق بیان کیا کہ موجودہ دور میں جاری ان تنازعات کی طویل مدت ، ان میں غیر ملکی عناصر کی گہری مداخلت اور ان کے متنوع مفادات کے سبب شام اور افغانستان کی لڑائیوں کے متعلق تحقیقی جانچ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے وسیع تر تناظر میں غیر اعلانیہ علاقائی تنازعات وہ بنیادی محرکات ہیں جنہوں نے شام اور افغانستان کی جنگوں کو بھڑکایا ہے ۔
” شام کا تنازعہ ایک بھیانک مثال ہے جہاں ایک بالادست ریاست اور بین الاقوامی برادری دونوں ہی عام شہریوں کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں اور وہاں غیر ملکی عناصر کی مسلسل مداخلت نے ایک داخلی لڑائی کا دائرہ کار بہت وسیع سطح پر پھیلا دیا ہے۔
اس تحقیق کے ذریعے ہمیں ثبوتوں کے ساتھ علاقائی نوعیت کی پراکسی جنگوں کو مزید بہتر انداز سے سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ان خطوں سے تعلق رکھنے والے مقامی پالیسی ساز، دانشور اور پیشہ ورانہ امور کے ماہرین کی مدد سے ہم ان تنازعات کی مختلف جہتیں سمجھنے کی کوشش کریں گے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ اس دوران کس نوعیت کی غیرملکی مداخلت جاری ہے تاکہ اس کے نتیجے میں جنم لینے والے اس عظیم انسانی بحران کے خاتمے کے لئے وسیع منصوبہ بندی کی جا سکے ۔
پروفیسر اکبرزادے کا کہنا ہے کہ اس پراکسی جنگ کے خاتمے کے لئے پورے خطے کو متحد ہونا پڑے گا ۔
وہ کہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کا تنازعہ کسی ایک ریاست تک محدود نہیں ہے اور اس میں ملوث ریاستیں اس کو ختم کرنے کے لئے محض اپنے طور پر کوئی اقدام اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوں گی ۔
ہم خلیج فارس ، جنوب ایشیاء اور وسط ایشیائی خطوں میں رابطہ کاری کو فروغ دیں گے تاکہ بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کے کردار کو سمجھ سکیں ۔ عرب علاقوں سے مقامی ماہرین کی شمولیت سے ہمیں پراکسی تنازعات کے خاتمے کے لئے داخلی طرز کے مستقل حل تلاش کرنے میں آسانی ہوگی۔
ہمارا مقصد یہ ہے کہ علاقائی تحفظ کے اس اہم اور فوری معاملے پر پالیسی ساز ادارے بطور اسٹیک ہولڈر توجہ دیں تا کہ یہ پراجیکٹ ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر تیز رفتار اور دیرپا حل تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوسکے ۔
”شام اور افغانستان کی پراکسی جنگوں میں غیرملکی عناصر کی جانچ” کے عنوان سے شروع کیا جانے والا’ ڈیکن یونیورسٹی ‘ کا یہ پراجیکٹ ممکنہ طور پر جون 2020 میں اختتام پذیر ہوجائے گا ۔